ًصنعاء:8 /اپریل(ایس اونیوز /آئی این ایس انڈیا) جنگ زدہ ملک یمن میں ہیضے کی ہلاکت خیز وبا کئی ملین افراد کو متاثر کر چکی ہے لیکن اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو اب تک ادویات پہنچانے کی اجازت نہیں مل پائی۔یمن میں لاکھوں افراد ہیضے کے مرض میں مبتلا ہیں اور اب بھی ہر روز ہزاروں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ سن 2017 کے موسم گرما میں اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ یمن میں ہیضے کے مرض سے بچاؤ کے لیے ویکسین پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن عالمی ادارہ ایک برس بعد مئی سن 2018 میں ہی ویکسین کی پہلی کھیپ یمنی حدود میں پہچا پایا تھا۔ اس وقت تک ایک ملین سے زائد یمنی شہری ہیضے کے مرض مبتلا ہو چکے تھے۔اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی فورسز کے مابین جاری مسلح تصادم کے باعث ہیضے سے بچاؤ اور علاج کے لیے ادویات پہنچانے کا عمل اب بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔اس معاملے سے باخبر اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ ہیضے سے بچاؤکی ادویات بروقت نہ پہنچائے جانے کی حقیقی وجہ حوثی باغی تھے،جنہوں نے ادویات لینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ مسئلہ حل کیے جانے میں کئی ماہ لگ گئے۔حوثی باغیوں کا مطالبہ تھا کہ یہ ادویات اسی وقت قبول کی جائیں گیں جب ان کی فوجوں کے لیے ایمبولینسز اور طبی سامان بھی فراہم کیا جائے گا۔ویکسین کی فراہمی کی اجازت نہ ملنے کے سبب امدادی اداروں کو ہیضے کی وبا پر قابو پانا مزید مشکل ہو گیا تھا۔ یمن میں اب تک یہ مرض قریب تین ہزار افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت اپنے پارٹنرز کے ہمراہ ہیضے کے علاج کے لیے کلینکس، طبی سہولیات اورادویات کی فراہمی کے علاوہ یمن کے صحت کے شعبے کی مدد بھی کر رہا ہے۔ہیضہ آلودہ پانی یا خوراک میں موجود ’بیکٹیریم وائبرو کولرا‘ سے پھیلتا ہے۔عام طور پر اس مرض کی علامات بہت کم ظاہر ہوتی ہیں لیکن شدید نوعیت کے معاملات میں اگر مریض کا علاج نہ کیا جائے تو اس کی چند گھنٹوں میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔تین سال سے زائد عرصہ سے جاری حکومتی فوجوں اور حکومت مخالف حوثی باغیوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے صحت کی سہولیات شدید متاثر ہوئی ہیں اور یمن کے محکمہ صحت کو ہیضے سے وبا سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ادویات اور دیگر اشیا کی رسد میں تعطل خاصا طویل ہے اور تقریبا 30 ہزار طبی عملے کو قریب دو برس سے تنخواہیں بھی نہیں ملیں۔